The story of Snow Queen English stories + Urdu Stories (Moral Stories, Funny Stories, Famous Stories, Magical Stories, Prince/ Princess Stories, Fairytale Stories)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دو بہت ہی پکے دوست تھے ایک کا نام اقصیٰ اور دوسرے کا نام علی تھا وہ ایک دوسرے کے پڑوسی تھے اور دونوں مل کر کھیلا کرتے تھے دونوں دوستوں کو پھول بہت پسند تھے اسی وجہ سے دونوں نے مل کر گھر کے باہر باغ میں مختلف قسم کے پھول بھی لگاۓ ہوۓ تھے
ایک روز اقصی کی دادیانہیں برف کی ملکہ کی کہانی سنانے لگی کہ برف کی ملکہ بہت ظالم چڑیل تھی وہ لوگوں کے دلوں کو اپنے قابو میں کرکہ انھیں اپنا غلام بنالیتی تھی اس پر اقصیٰ نے کہا ہمیں خود کو برف کی ملکہ سے بچانا ہوگا اقصیٰ کی یہ بات سن کر علی ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ اگر وہ یہاں آئ تو میں اس کو آگ پر بیٹھا دوں گا اور وہ پانی کی ملکہ آگ کی ملکہ بن جاۓ گی یہ کہہ کر علی ہنسنے لگا
اتنے میں ان کو زور زور سے کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دیتی ہے آواز سن کر علی نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو باہر بہت زیادہ برف پڑ رہی تھی پھر اچانک سے علی کے دل پر کچھ ہونے لگا جب اقصیٰ نے اس سے پوچھا کے علی تمہیں کیا ہورہا ہے تو اتنے میں علی اقصیٰ کو دھکا دیتا ہے اور وہاں سے چلا جاتا ہے علی کا ایسا رویہ اقصیٰ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا
اس دن کے بعد سے علی کا رویہ بہت عجیب سا ہوگیا وہ اب اقصیٰ سے بدتمیزی سے بات کرتا مگر اقصیٰ کو علی کا یہ رویہ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا پھر ایک روز علی اپنی برف گاڑی لے کر باہر آیا تو اقصیٰ نے کہا کہ کیا میں بھی تمھارے ساتھ کھیل لوں؟ تو اس پر علی نے بڑی بدتمیزی سے جواب دیتے ہوۓ کہا نہیں مجھے تمھارے ساتھ نہیں کھیلنا اور اپنی برف گاڑی تیزی سے بھگا لی اقصیٰ، علی کے اس رویہ کو دیکھ کر روتے ہوۓ گھر چلی گئی
دوسری طرف علی اپنی برف گاڑی کو تیزی سے بھگاتا ہوا دور چلا گیا کہ اچانک اس کے سامنے ایک سفید گھوڑوں کی بگی نمودار ہوگئی اور پھر اس بگی نے علی کی برف گاڑی کو تیزی سے اپنے ساتھ گھسیٹ لیا شروع میں علی کو بہت مزہ آیا لیکن کچھ ہی دیر کے بعد وہ گھبرا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بگی علی کو سنو لینڈ لے گئی اور پھر ایک بہت ہی بڑے برف کے محل کے سامنے جاکر روک گئی
بگی میں سے ایک انتہائی خوبصورت لڑکی اترتی ہے وہ ہوتی ہے برف کی ملکہ۔ ملکہ علی کو سنو لینڈ کی دنیا میں خوش آمدید کہتی ہے۔ اس سے پہلے کے علی کچھ کہتا برف کی ملکہ نے علی کے سر پر اپنا ہاتھ گھومانا شروع کردیا۔ ملکہ کا جادو علی پر چل گیا اور پھر علی اس ملکہ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ برف کی ملکہ علی کو اپنے ساتھ محل کے اندر لے گئی۔
اقصیٰ نے علی کا بہت انتظار کیا لیکن وہ نہیں لوٹا۔ اقصیٰ نے اسے ڈھونڈنے کی بھی بہت کوشش کی لیکن وہ کہیں نہیں ملا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد گرمی آگئی اور وہ اسے روز ڈھونڈنے نکل جاتی کیونکہ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ علی کو ڈھونڈ کر ہی رہے گی۔ اس نے اس بات کا ذکر دادی سے کیا جس پر دادی نے اسے حوصلہ دیتے ہوے کہا تم بہت بہادر لڑکی ہو مجھے معلوم ہے کہ تم اسے ضرور ڈھونڈ لاؤ گی اس پر اقصیٰ نے دادی کا شکریہ ادا کیا پھر دادی نے اقصیٰ کو ایک آئینہ نکال کر دیا۔ اور کہا کہ یہ آئینہ تمہیں علی کو ڈھونڈنے میں مدد کرے گا۔
اقصیٰ نے آئینہ لیا اور علی کو ڈھونڈنے نکل گئی۔ چلتے چلتے وہ اپنے گھر سے بہت دور چلے گئی راستہ میں اس نے درختوں، چڑیوں،جانوروں، پہاڑوں اور پتھروں سے پوچھا کہ کیا انہوں نے علی کو کہیں دیکھا ہے۔ لیکن کسی نے بھی علی کو نہیں دیکھا تھا۔ اس پر اقصیٰ مایوس تو ہوئی لیکن ہمت نہیں ہاری۔ وہ آگے چلتی گئی اور چلتی چلتی ایک دریا کے پاس پہنچی وہاں کوئی بھی نہیں تھا اقصیٰ کچھ دیر تو روک کر دریا کہ پاس دریا کو دیکھتی رہی اور پھر بولی آے پیارے دریا کیا تم نے میرے دوست علی کو دیکھا ہے وہ کہیں گم ہوگیا ہے اس پر اس کو دریا کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔
وہ وہاں سے مایوس ہوکر جانے ہی لگی تھی کہ اچانک سے ایک کبوتر اڑتا ہوا آیا اور اس کے کندھے پر آکر بیٹھ گیا۔ اور بولا میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں لیکن اس کے بدلے میں تمہیں مجھے کچھ دینا ہوگا۔ یہ کہہ کر کبوتر اڑ گیا۔ اقصیٰ سمجھ گئی تھی کہ یہ دریا کی طرف سے کوئی پیغام ہے۔ اس نے اپنے گلے کا ہار اتارا اور دریا میں پھینک دیا۔
اچانک سے دریا میں ایک کشتی نمودار ہوتی ہے۔ اقصیٰ اس پر بیٹھ جاتی ہے اور کشتی خود بخود چلنے لگی اور دریا کے دوسرے کنارے جاکر روک گئی۔ جب اقصیٰ کشتی سے اتری سامنے ایک انتہائی خوبصورت باغ تھا۔ جس میں مختلف قسم کے پھول تھے جو اقصیٰ نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اقصیٰ پھولوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی لیکن اس نے محسوس کیا کے پھولوں میں تو خوش بو ہی نہیں ہے۔
پھر اقصیٰ کے پاس ایک عورت آئ۔ آتے ساتھ اس نے اقصیٰ کو خوش آمدید بول کر پوچھا کہ تم کون ہو؟ اور یہاں کیا کرنے آئ ہو؟ اس پر اقصیٰ نے جواب دیا میں اقصیٰ ہوں اور میں اپنے دوست علی کو ڈھونڈنے آئ ہوں۔ کیا آپ نے اسے دیکھا ہے؟ اس پر اس عورت نے اقصیٰ کو جواب دیا کہ نہیں میں نے نہیں دیکھا۔ اس پر اقصیٰ نے کہا پھر ،مجھے یہاں سے چلنا چاہیے اور میں آپ کو پریشان کرنے پر معزرت چاہتی ہوں۔
!پھر اچانک سے وہ عورت بولی روکو! کیا نام بتایا تو نے اپنے دوست کا؟ تو اقصیٰ بتاتی ہے علی
پھر اس عورت نے سوچنے کے بعد بولا کہ میں نے ابھی کچھ دیر پہلے یہاں سے ایک لڑکے کو جاتے دیکھا تم آؤ میرے ساتھ۔میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں پھر وہ عورت اقصیٰ کو اپنے ساتھ گھر لے گئی۔ پھر اس نے پوسچا کہ بتاؤ تمہارا دوست کیسے غائب ہوا اس پر اقصیٰ نے بتایا کہ مجھے اس کا شک برف کی ملکہ پر ہے یہ سن کر وہ عورت حیرانگی سے بولی برف کی ملکہ وہ تو ایک چڑیل ہے۔
اور اس نے بتایا کہ اسی چڑیل کی وجہ سے تو میرے سارے پھولوں کی خوشبو ختم ہوگئی ہے۔ میں تو اس کو سبق سکھانا چاہتی ہوں۔ کچھ دیر بعد وہ عورت اقصیٰ کے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ اور اس پر جادو کرنے لگی کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ اقصیٰ اس کے پاس ہی رہے اور اس کہ لیے اس نے اقصیٰ کی پچھلی یاداشت ہی مٹا دی۔
اس عورت کے جادو کرتے ہی اقصیٰ سوگئی پھر جب وہ اٹھی تو اس کی یاداشت جاچکی تھی۔ جب اقصیٰ ہوش میں آئ تو اٹھتے ساتھ بولی میں کہاں ہوں؟ تو اس پر وہ عورت بولی تم میرے ساتھ ہو میرے باغ میں۔ لیکن اس عورت کا جادو اقصیٰ کی پاک روح پر نا چل سکا۔ جیسے ہی اقصیٰ نے عورت کے سر پر لی ہوئی ٹوپی پر پھول دیکھا تو اس کو علی اور اس کے ساتھ باغ میں بتایا ہوا وقت یاد آنے لگا۔ اور آہستہ آہستہ اسے سب یاد آگیا۔
سب یاد آنے کے بعد اقصیٰ فوری سے بولی مجھے علی کو جلد سے جلد ڈھونڈنا ہوگا۔ مجھے اجازت دیں اب مجھے یہاں سے چلنا چاہیے یہ کہہ کر اقصیٰ وہاں سے چل پڑی۔ عورت نے اقصیٰ کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن اقصیٰ اپنے فیصلے پر اٹل رہی۔ پھر وہ واپس جاکر کشتی میں بیٹھ گئی۔ کشتی چل پڑی لیکن اسے بلکل بھی معلوم نہیں تھا کہ اب اسے کہاں جانا چاہیے۔ اس پر اس نے دریا سے مدد مانگی کہ اے دریا میں بہت مشکل میں ہوں تو میری مدد کرو ابھی وہ یہ دعا کر ہی رہی تھی کہ ایک کوا اڑتا ہوا اس کے کندھے پر آکر بیٹھ گیا۔
پھر کوے نے اسے شمال کی جانب اپنے پیچھے آنے کو کہا وہ ویسے ہی پیچھا کرتے ہوۓ ایک برفیلے ٹاپو پر پہنچ گئی۔ وہاں اسے ایک بڑی سے کشتی نظر آئ۔ اقصیٰ اس کشتی پر چڑھ گئی۔ وہاں اسے کچھ لوگ نظر آے اقصیٰ نے گھبراتے ہوے پوچھا کہ کیا یہ کشتی مجھے برف کی ملکہ کے پاس لے جائے گی؟ اتنے میں ایک بحری کذاک لڑکی آتی ہے اور کہتی ہے کے کیا تم راستہ بھٹک کر یہاں آگئی ہو؟ کیا تم جانتی ہو کہ تم اس ٹائم بحری کزاکوں کی کشتی پر ہو؟
پھر اقصیٰ نے برف کی ملکہ کے بارے میں اس لڑکی کو سب کچھ بتایا۔ اس لڑکی کو اقصیٰ کی ساری بات سن کر بڑا افسوس ہوا۔ پھر اس نے بتایا کہ تم اپنے دوست کو برف کی ملکہ کے محل سے نہیں نکال سکتی بھول جاؤ اسے۔ اس پر اقصیٰ نے اسے جواب دیا کہ میں کسی بھی قیمت پر اسے ڈھونڈ نکالوں گی اسے تنہا نہیں چھوڑوں گی۔ اس پر لڑکی نے اقصیٰ سے کہا اصل میں میرا کوئی دوست نہیں ہے اس لیے میں چاہتی ہوں تم میرے پاس رہو۔ کیونکہ میں تمھارے رویہ سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔ اور میں تمہارے دوست کو ڈھونڈنے میں بھی تمہاری مدد کروں گی۔
اگلی صبح بحری کزاک لڑکی نے اقصیٰ کو بارہ سنگاہ لا کر دیا۔ اور اس نے اقصیٰ کو بتایا کہ یہ اس سلطنت کا سب سے تیز بڑھ سنگاہ ہے۔ یہ تمہیں برف کی ملکہ کے محل لے جانے میں مدد کرے گی۔ اس پر اقصیٰ نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ پھر اس لڑکی نے اسے کہا کہ تم جاؤ جا کر اس برف کی ملکہ کو اچھا سبق سکھاؤ۔
پھر اقصیٰ اس بارہ سنگاہ کی پیٹھ پر بیٹھ گئی اور پھر وہ بڑھ سنگاہ اسے تیزی سے لے کر بھاگنے لگا۔ کافی سفر تہہ کرنے کے بعد اقصیٰ ایک برف کے اگلو کے پاس پہنچی وہاں اسے ایک بوڑھا آدمی ملتا ہے۔ وہ بوڑھا آدمی اقصیٰ کو دیکھ کر بولا کہ تم وہ آئینہ لے آئ ہو؟ اقصیٰ کو بوڑھے آدمی کی یہ بات سن کر بہت حیرانی ہوئی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس بوڑھے آدمی کو آئینہ کے بارے میں کیسے پتہ چلا۔
کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے وہ آئینہ نکال کر بوڑھے آدمی کو دیکھایا۔ اور پھر اقصیٰ نے پوچھا کیا یہ آئینہ میری برف کی ملکہ سے جیتنے میں مدد کرے گا؟ اس پر بزرگ نے بولا نہیں! یہ جادوئی آئینہ ہے یہ صرف سچائی دیکھاتا ہے۔ پھر بزرگ نے اقصیٰ کو برف کی ملکہ کے بارے میں بتانے لگا کہ جب برف کی ملکہ چھوٹی تھی تب وہ بڑی مہربان اور خوش مزاج تھی۔ وہ جہاں جاتی پھول کھل جاتے۔ جب وہ مسکراتی اس کی آنکھیں سورج کی طرح چمکتی وہ بہت الگ اور خوش مزاج تھی۔ اس کا نام آمنہ تھا۔ ہر کسی کو لگتا تھا کہ آمنہ ایک چڑیل ہے اسی وجہ سے آمنہ کے ساتھ کھیلنے کے لیے کوئی بھی اپنے بچوں کو اجازت نہیں دیتا تھا۔
اس کو سب نے تنہا چھوڑ دیا تھا اسی وجہ سے جلد ہی وہ سب سے نفرت کرنے لگی تھی۔ اور پھر ایک دن اس نے یہ دعا کی جن لوگوں نے میرے ساتھ برا کیا ہے وہ برف کے بن جائیں۔ پھر اس نے دور ایک برف کا محل بنایا۔ وہ وہاں اکیلی پڑی رہی بغیر کسی پیار اور محبت کے۔ میں تمہیں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم اسے مارنا نہیں صرف اس کے برے خیالات کو ختم کرنا۔
یہ آئنہ تمہیں اس کا اچھا وقت یاد دلانے میں تمہاری مدد کرے گا جس کی مدد سے تم اپنے دوست کو آزاد کروا سکوگی۔ پھر اقصیٰ برف کی ملکہ کے محل بہنچ گئی۔ اس نے علی کو ایک کونے میں دیکھا جہاں وہ برف کا ایک مجسمہ بنا رہا تھا۔ اقصیٰ اسے دیکھ کر اپنے ہوش کو قابو میں نہ رکھ سکی۔ اور بھاگ کر علی کے گلے لگ گئی اور کہنے لگی بہت خوشی ہوئی تمہیں دوبارہ دیکھ کر۔ اور اسے اپنی دوستی کے بارے میں یاد دلانے لگی۔ لیکن علی اس کی کسی بات کا جواب نہیں دے رہا تھا
پھر اچانک وہاں پر برف کی ملکہ نمودار ہوگئی اور اس نے اقصیٰ کو بتایا کہ یہاں کی ہر چیز کی طرح اس کا دل بھی برف کا بن گیا ہے۔ اور ملکہ نے کہا چلی جاؤ یہ میرا غلام ہے جاؤ یہاں سے ورنہ میں تمہیں بھی برف کا بنا دوں گی۔ اقصیٰ اس کی باتوں کی پرواہ کیے بغیر علی کو جھنجوڑتی رہی۔ اور کہنے لگی آؤ واپس چلے مجھے تمہاری بہت یاد آتی ہے۔ اور یہ کہتے ہوۓ اقصیٰ رو پڑی اور اس کا آنسو علی کے ہاتھ پر گرتا ہے۔ آنسو گرتے ہی اس کے پیار کا اثر ہونے لگا اور علی نارمل حالت میں آنا شروع ہوگیا۔ اور علی کو بھی پورانی یادیں یاد آنے لگی۔
پھر علی نے اچانک سے کہا اقصیٰ اور کہا مجھے سب یاد آگیا۔ برف کی ملکہ کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا۔ اور وہ غصہ سے اقصیٰ کے اوپر جادو کرنے لگی۔ لیکن اتنی ہی دیر میں اقصیٰ نے آئنہ نکال کر ملکہ کی طرف کردیا تاکہ وہ ملکہ کے جادو سے بچ سکے۔ جادو ختم ہوگیا پھر ملکہ نے اقصیٰ سے وہ جادوئی آئینہ پکڑ کر اس میں دیکھا۔ دیکھنے پر اسے چھوٹی بچی کا چہرہ نظر آیا۔ اور پھر اچانک برف کی ملکہ ایک چھوٹی بچی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اور پھر ملکہ کو اپنا اچھا رخ یاد آجاتا ہے اور پھر ملکہ اقصیٰ کا اس کا اصل چہرہ یاد کروانے پر شکریہ ادا کرتی ہے۔ اور کہتی ہے کہ اب میں اپنے برے خیالات سے آزاد ہوں۔ پھر اقصیٰ اور علی نے ملکہ کو خودا حافظ کہا اور وہاں سے چلے گئے
Comments
Post a Comment